IC-423 ہائی جیکنگ: پاکستانی کمانڈوز کا وہ آپریشن جس پر انڈیا نے جنرل ضیا کا شکریہ ادا کیا

  • وقار مصطفیٰ
  • عہدہ,صحافی، محقق
  • 1 اکتوبر 2024

29 ستمبر 1981 کو تیجندر پال سنگھ، ستنام سنگھ، گجندر سنگھ، کَرن سنگھ اور جسبیر سنگھ چیمہ انڈیا ایئر کی پرواز آئی سی 423 میں سوار ہوئے تو اُن کے پاس اسلحہ نہیں تھا۔

دلی سے پرواز بھرنے والے اِس طیارے کی منزل سری نگر تھی۔ مسافر طیارے کے پرواز بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد گجندر اور جسبیر کاک پٹ کے قریب موجود بیت الخلا کے پاس کھڑے ہو گئے اور جُوں ہی ایئر ہوسٹس پائلٹوں کے لیے کاک پٹ میں چائے لے کر جانے لگیں تو وہ بھی تیزی سے اندر داخل ہو گئے۔

یہ دیکھ کر باقی تین افراد یعنی تیجندر، ستنام، اور کَرن طیارے کی راہداری میں کھڑے ہو کر ’خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگانے لگے۔

اس طیارے پر موجود ایک مسافر ولیم سیکو نے بعد میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ جہاز میں انھوں نے ایک شخص کو چار دیگر افراد کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا۔

’میں نے سوچا کہ وہ اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ پانچوں ہائی جیکرز تھے جو دراصل عملے کی جانب لپک رہے تھے۔ اُن کے پاس چاقو تھے۔ انھوں نے بیگ لٹکا رکھے تھے اور ان کے ہاتھ اس طرح ان کے اندر تھے جیسے اُن میں بم ہوں۔‘

سیکو کا کہنا تھا کہ 15 منٹ کے اندر ہائی جیکر طیارے کا کنٹرول سنبھال چکے تھے۔

انڈیا میں کشیدگی پچھلے نو، دس دن سے چل رہی تھی۔ انڈین پنجاب کی پولیس سکھ رہنما جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کو لالا جگت نارائن نامی شخص کے قتل کیس میں گرفتارکرنا چاہتی تھی۔

20 ستمبر 1981 کو جب سکھ رہنما بھنڈراں والا نے گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا تو اِس موقع پر پولیس تشدد کے نتیجے میں احتجاجی مقام پر 20 سے زیادہ سکھوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔

بعدازاں ہائی جیکرز میں ایک یعنی تیجندر سنگھ نے ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کی نمائندہ رچنا کھَیرا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں نے مہتا چوک میں بہت خون ریزی دیکھی۔ سکھوں کو گھسیٹ کر قریبی کھیتوں میں لے جایا گیا اور گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔‘

’پولیس نے اُن کی لاشیں بھی اٹھا لیں اور نامعلوم افراد کے طور پر ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ اس پر میں بہت مشتعل ہوا اور اسی لیے جب میرے رہنماؤں نے جہاز کو ہائی جیک کرنے کا کہا تو میں نے آسانی سے ’پنتھ سیوا‘ (مذہبی فرض) ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔‘

تیجندر نے مزید بتایا کہ کہ انھوں نے طیارہ ہائی جیک کرنے کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ پولیس بھنڈراں والا کو حراست میں ہلاک کر سکتی ہے۔

انڈین ایئر لائنز کی پرواز 423 پر سوار پانچوں ہائی جیکروں نے پہلے بھی دو بار اسی فضائی راستے پر سفر کیا تھا۔ جوں ہی جہاز نے ٹیک آف کیا تو وہ سب اپنی اپنی طے شدہ ڈیوٹی پر چلے گئے۔

ایک اور ہائی جیکر ستنام سنگھ نے ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کی نمائندہ رچنا کَھیرا کو بتایا کہ ’دو ساتھیوں نے کاک پٹ کا چارج سنبھال لیا اور میں نے دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ مسافروں کے کیبن کا کنٹرول سنبھال لیا۔‘

طیارے کا رُخ لاہور کی طرف موڑ دیا گیا

وہاں سے لاہور دور ہی کتنا تھا۔ ٹیک آف کے کچھ ہی دیر بعد یعنی پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ڈیڑھ بجے ہائی جیک ہونے والا طیارہ لاہور میں لینڈ کر گیا۔

’دی ہندو‘ اخبار سے منسلک صحافی سہاسنی حیدر کے مطابق یہ خبر سامنے آتے ہی دلی میں کیبنٹ سیکریٹری نے کرائسس مینجمنٹ کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا۔

اپنے ایک مضمون میں وہ لکھتی ہیں کہ ’اس کے فوراً بعد پاکستان میں انڈیا کے ہائی کمشنر کنور نٹور سنگھ [جو بعد میں انڈیا کے وزیر خارجہ بنے] نے لاہور ایئر ٹریفک کنٹرول سے تصدیق کی کہ آیا ہائی جیک ہونے والا انڈیا مسافر طیارہ وہاں اُتر گیا ہے یا نہیں۔‘

’اس کے بعد انڈین اور پاکستانی حکام تبادلہ خیال کرنے لگے کہ انھیں آگے کیا کرنا ہے۔‘

انڈین ایئر لائنز، لاہور
،تصویر کا کیپشنعلامتی تصویر

وہ لکھتی ہیں کہ ’ایک موقع پر انڈیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر سیتندر کمار لامبا نے خود بھی طیارے میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن انھیں سکیورٹی فورسز نے واپس کھینچ لیا۔ اگر ہائی جیکرز سینیئر سفارتکار کو بھی یرغمال بنانے کا فیصلہ کر لیتے تو یہ بہت غلط ہو سکتا تھا۔‘

لامبا بعد میں انڈیا کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے دور حکومت میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے خصوصی نمائندے بنے۔

لامبا اپنی کتاب ’ان پَرسُوٹ آف پیس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’نٹور سنگھ اور میں فوراً خارجہ سیکریٹری ریاض پیرزادہ سے ملے اور اگلی فلائٹ سے ساڑھے چار بجے لاہور پہنچ گئے۔ فرسٹ سیکریٹری اجیت ڈوول (جو بعد میں انڈیا کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بنے) اور وجے کمار کار سے پہنچے۔‘

’میں پہنچتے ہی انڈین ایئرلائنز کے لاہور میں مینجر ایس آر دَتا (جنھوں نے لامبا کے بقول لنچ کے وقت انڈین ایمبیسی کو طیارے کے اغوا اور لاہور لائے جانے کی خبر دی تھی) کے ہمراہ سیدھا اغوا شدہ طیارے کی جانب چلا گیا۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے