’ساری رات بم گرتے رہے۔ وہ رات ہم نے اس خوف میں گزاری کہ ابھی کوئی بم ہم پر گرے گا۔ ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ ہم اس خوفناک بمباری سے بچ گئے ہیں۔‘
بی بی سی سے لبنان میں شعبہ تعمیرات میں کام کرنے والے ایک پاکستانی مزدور مراد نصیب (فرضی نام) نے بات کرتے ہوئے یہ بات کہی جو شہر صوبہ پنجاب کے بہاولپور کے رہائشی ہیں۔ جس رات کی وہ بات کر رہے ہیں اس وقت وہ جنوبی لبنان میں موجود تھے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ محدود زمینی کارروائی کا آغاز بھی کر دیا ہے جبکہ اب تک مجموعی طور پر لبنان میں 1000 سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور ہزاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ان حملوں سے قبل لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ سمیت متعدد رہنما بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم اب تک کسی پاکستانی شہری کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔
ایسے میں بی بی سی نے لبنان میں موجود پاکستانی شہریوں سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی۔
بیروت میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے ڈپٹی مشن نواب عادل خان کے مطابق لبنان میں اس وقت تقریبا 300 پاکستانی موجود ہیں۔ تاہم مراد نصیب نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے اندازے کے مطابق اس وقت 3000 کے قریب ایسے پاکستانی لبنان میں موجود ہیں جن کی اکثریت شعبہ تعمیرات میں مزدوری کرتی ہے۔
ان کا دعوی ہے کہ ان مزدوروں کی اکثریت لبنان میں پاکستانی سفارت خانے میں رجسڑ نہیں اور بیشتر اسرائیل کے حملوں سے سب سے زیادہ متاثرہ جنوبی لبنان میں کام کرتے ہیں۔ بی بی سی آزادانہ زرائع سے لبنان میں موجود پاکستانیوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
مراد کا کہنا تھا کہ ’کچھ دن پہلے ہی پاکستانی سفارت خانے نے 100 سے زائد مزدوروں کو چائے پر بلایا تھا اور کہا کہ لبنان کے حالات کا کچھ پتا نہیں اس لیے بہتر ہے کہ ہم کوئی فیصلہ کرلیں۔ مگر ہم میں سے اکثریت کے لیے واپس جانا ممکن نہیں تھا کیوں کہ ہم دیہاڑی دار مزدور ہیں۔‘
تاہم یہاں یہ سوال اہم ہے کہ پاکستانی شہری لبنان میں کیوں موجود ہیں؟
لبنان میں موجود پاکستانی

بیروت میں پاکستانی ایمبیسی کے ڈپٹی مشن نواب عادل خان کے مطابق لبنان میں تین طرح کے پاکستانی ہیں۔
’پہلے وہ ہیں جو لبنان ہی میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی۔ وہ عربی بولتے ہیں، لبنان ہی میں شادیاں کی ہیں۔ ان کے پاس پاکستانی دستاویزات بھی ہیں اور پاکستانی مشن ان لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے۔ یہ تعداد میں اتنے زیادہ نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرے وہ ہیں جو یہاں پر مختلف بین الاقومی اداروں اور بین الاقوامی این جی اوز میں ملازمتیں کرتے ہیں۔‘
’یہ لوگ اقوام متحدہ، یونسیف وغیرہ میں ملازمتیں کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو تو حالات خراب ہونے سے پہلے اور اب واپس بھیج دیا گیا ہے اور کچھ لوگوں نے ٹکٹ حاصل کرلیے ہیں وہ بھی ممکنہ طور پر نکل جائیں گے اور کچھ اپنے کام کے سلسلے میں لبنان میں رکیں گے۔‘
نواب عادل خان کے مطابق ’ہمارے پاس تقریبا 250 پاکستانی مزدور بھی رجسڑ ہیں۔ یہ لوگ شعبہ تعمیرات سے وابستہ ہیں اور کچھ فیکڑیوں میں ملازمت کرتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’پاکستانی مشن نے کئی مرتبہ اعلانات کیے اور باربار مختلف زرائع سے کہا گیا کہ پاکستانی لبنان میں ہر صورت میں پاکستانی مشن کے ساتھ رجسڑ ہوں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ سب رجسڑ ہوں گے مگر غیر رجسڑڈ کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔‘
’ایسے لگا ابھی کوئی بم ہم پر گرے گا‘
مراد نصیب اسرائیل حملے سے قبل جنوبی لبنان کے علاقے میں راج مستری کا کام کرتے تھے جہاں پر ان کو 500 ڈالر ماہانہ مزدوری ملتی تھی۔
یہ رقم لبنان کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں ہے مگر اس کے ساتھ ان کو کھانا پینا اور رہائش کی سہولت ملتی تھی۔ وہ زیادہ رقم پاکستان بھجوا دیتے تھے۔
مراد نصیب نے جنگ کے دوران کے شب و روزکے بارے میں بتایا کہ ’آٹھ، دس دن قبل جب حملے ہوئے تو میں بتا نہیں سکتا کہ کیا منظر تھا۔‘
’یہ بارڈر کا علاقہ تھا اور ہر طرف اوپر سے بم گر رہے تھے۔ ہمیں تو بس یہ ہی لگا کہ ہم ابھی ان بموں کی زد میں آئے کہ ابھی آئے۔ بموں سے وہ جگہیں مکمل تباہ ہو گئیں تھیں۔ ہماری اور دیگر پاکستانیوں کی خوش قسمتی تھی جو محفوظ رہے۔‘
مراد نصیب کا کہنا تھا کہ ان کے ٹھکانے پر تقریبا 40 افراد تھے جن میں پاکستانیوں کے علاوہ بنگالی اور افغانی بھی رہتے تھے اور ’کسی کی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
’بمباری اتنی زیادہ تھی کہ ہم لوگ اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہم لوگ ایک ہی بڑے ہال میں رہائش پزیر تھے۔ وہاں پر بجلی بھی چلی گئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں ساری رات بم گرتے رہے اور ایسی آوازیں آتی رہیں کہ جیسی جہاز کی آوازیں ہوں۔ وہ ساری رات ہم نے خوف میں گزاری بس ہمیں ایسے لگا کہ ابھی کوئی بم ہم پر گرے گا۔ وہ اتنی خوفناک رات تھی کہ بتا نہیں سکتا۔ ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ ہم اس خوفناک بمباری سے بچ گئے ہیں۔‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے مزدور حسین (فرضی نام) بھی لبنان میں روزگار کی غرض سے موجود ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے موجودہ صورت حال کے تناظر میں شدید مالی مشکلات سے آگاہ کیا۔
’ہم سب مزدور اپنے پاس صرف اتنے ہی پیسے رکھتے ہیں جو ہماری ضروریات پوری کر سکیں۔ یہ بہت تھوڑے پیسے ہوتے ہیں باقی پیسے ہم پاکستان بھجوا دیا کرتے تھے۔ پھر ہمیں بتایا گیا کہ اب جنوبی لبنان کے اس علاقے میں کام ممکن نہیں اور ہمیں شمالی لبنان پہنچایا جائے گا۔‘
حسین نے مزید بتایا کہ ’جنوبی لبنان سے شمالی لبنان کا راستہ زیادہ سے زیادہ چار، پانچ گھنٹے کا ہے۔ مگر موجودہ صورت حال میں سفر کرنے والوں کا اتنا رش تھا کہ ہمیں شمالی لبنان میں پہنچتے پہنچتے 14-15 گھنٹے لگ گئے تھے۔‘
حسین نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ سفر ٹرکوں میں بیٹھ کر کیا تھا۔ ان کے مطابق ’ایسے لگتا تھا کہ ہر کوئی جنوبی لبنان چھوڑ کر شمالی لبنان کی طرف جانا چاہتا ہے۔‘
حسین کے مطابق اب وہ شمالی لبنان میں ایک مقام پر ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اب ان کے پاس بہت کم پیسے ہیں جبکہ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔
’میں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ باہر جا کر چائے پینے کی کوشش کی تو چائے کی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ ہماری جیب میں اتنے پیسے نہیں تھے۔‘
مراد نصیب کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اب مالک کہہ رہا ہے کہ ہم اپنا انتظام کریں کیونکہ ممکنہ طور پر اب جنوب لبنان میں کچھ عرصہ تک امن قائم نہیں ہوگا اور اگر ہوگا بھی تو کب ہوگا۔‘